Wednesday, January 20, 2016

ہمارے حکمران اور ٹریفک


کچھ دن پہلے رات کے دوسرے پہر ہم لوگ گھوم پھر کے واپس آ رہے تھے کہ ہم نے واپسی   کے لیے فورٹریس اسٹیڈیم کا راستہ منتخب کیا۔ واپسی کے اس راستے پر ہم ٹرن لینے ہی والے تھے کہ ٹریفک کانسٹیبل نے ہمیں روک دیا اور کہا کہ آپ تھوڑی دیر بعد اس راستے سے جائیں گے۔ حیرانی کم پریشانی میں ہم ان صاحب کی بات ماننے پر مجبور تھے۔ کیونکہ بحیثیت پاکستانی ہم میں بہت لوگ ایسے ہیں جو کسی بات پر کم ہی توجہ دیتے ہیں۔ پھر وہ صاحب ہم سے آگے  بلکہ پاس ہی دو نوجوان موٹر سائیکل سواروں کو اس رستے سے واپس لے آئے تھے جس پر ہم نےدوبارہ سفر  رواں کرنا تھا۔اتنی سی دیر میں ہمارے پیچھے گاڑیوں کا جم غفیر تھا کہ ہم واپس بھی نہیں جا سکتے تھے۔ بوریت کے ان لمحوں میں باہر کا منظر بھی قابلِ دید نہ تھا۔تھوڑی دیر بعد بھائی سے اس کی وجہ پوچھی تو "یہاں سے کسی گورنر یا وزیر نے گزرنا ہو گا" کا جواب آیا۔اب بھلا یہ کیا بات ہوئی کہ اس گورنر کی آمد کی خوشی میں ہم اس ٹریفک میں پھنسے رہیں اور وہ صاحب سنسان سڑک سے فٹ سے گزر جائیں۔ "یہ لوگ ہمیں اتنی تکلیف کیوں دیتے ہیں؟ ابھی تو تم صرف یہی نظارہ دیکھ رہی ہو۔ اگر کبھی صبح کے اوقات میں دیکھو تو یہ بڑے بڑے سرکاری افسر  اسی طرح جاتے ہیں۔ بھائی نے میرے استفسار پہ کہا۔مگر کیوں؟
کیوں یہ اس طرح سے جاتے ہیں؟ کیا یہ عام لوگوں کی طرح ٹریفک کی لمبی قطار کا حصہ نہیں بن سکتے؟ کیا اس طرح ٹریفک روک کر ان کے جانے سے ملک ترقی کرے گا؟ کیا اس طرح ہمیں تکلیف میں رکھنا ان کی ذمہ داری ہے؟ اگر ان کو موت کا خوف انہیں اس طرح سے جانے پر آمادہ کرتا ہے تو ہم نے تو انہیں سیاست کی طرف آنے کو نہیں کہا تھا۔ انہیں خود ہی قوم کی خدمت کا شوق چرایا تھا۔کیا اس طرح کی پروٹیکشن سے  وہ موت کے شکنجے سے بچ جائیں گے؟ کیا انہیں نہیں پتا کہ موت تو ہر وقت ، ہر لمحہ ہر ذی الروح کا تعاقب کرتی ہے ۔ حتٰی کہ اس نوازئیدہ کا بھی جو  ابھی اس دنیا میں آنکھ نہیں کھولتا،  وہ بیچارہ بھی موت کے شکنجے میں آ جاتا ہے۔
بم بلاسٹ کی وجہ سے ہزاروں لوگ اس وباء کی زد میں آ رہے ہیں یا کسی نہ کسی قدرتی آفت کی زد میں آ رہے ہیں۔ہر گھر میں ماں، بیٹی یا بیوی صرف یہی دعا کرتی ہےکہ ان کے پیارے صحیح سلامت واپس گھر کو آجائیں۔ گھڑی کی سوئیاں جہاں مطلوبہ ٹائم سے آگے سرک جاتی ہیں وہیں ان کی بےچینی شروع ہو جاتی ہے اور لب دعا میں مشغول ہو جاتے ہیں۔ مگر ہمارے بڑے بڑے سرکاری افسران کیا جانیں؟
میں نے آج تک جتنے بھی ترقی یافتہ ممالک کے بارے میں پڑھا ہے ان کے افسرانِ اعلٰی کو کبھی موت کا خوف نہیں ہوتا۔ بلکہ وہ پبلک ٹرانسپورٹ ہی استعمال کرتے ہیں اور عام لوگوں کی طرح زندگی گزارتے ہیں۔ہمارے یہاں الٹی گنگا بہتی ہے۔ہمارے افسرانِ اعلٰی اگر کبھی اپنے اس فعل پر غور فرمائیں تو ان کے اس قدم کی وجہ سے ہمارے قیمتی ٹائم کا کافی ضیاع ہوتا ہے۔ہم لوگ ان کی وجہ سے سکول، کالج اور آفس سے لیٹ ہوتے ہیں جو کہ ملکی ترقی میں رکاوٹ کا باعث ہے۔
میری حکمرانِ اعلٰی سے یہی گزارش ہے کہ برائے مہربانی اپنے اس فعل پر نظرِ ثانی کرے۔ کیونکہ اس طرح ٹریفک کے روکنے سے وہ اپنے مطلوبہ مقام پر پہنچ جائیں گے مگر نقصان دوسروں کا ہو گا۔ جیسے پچھلے دنوں سرکاری پروٹوکول کی وجہ سے معصوم بسمہ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھی ۔اس کا خون کس کے ذِمہ ہو گا؟
نادیہ یوسف

























No comments:

Post a Comment